تحریر: ملک سراج اکبر
بلوچستان میں سیاسی جماعت قائم کرنا مشکل کام ہے۔ اس سے زیادہ کٹھن کام نئی جماعت کے لئے مناسب نام ڈھونڈنا ہوتا ہے۔ نام کوئی بھی منتخب کریں اس پر نقطہ چینی ضرور ہوگی۔ اگر جماعت کا نام بلوچستان نیشنل پارٹی ہے تو اس پر اعتراض یہ ہوگا کہ یہ جماعت صرف صوبہ بلوچستان تک محدود کیوں ہے؟ کیا یہ پارٹی پنجاب اور سندھ کے بلوچوں کی جماعت نہیں بن سکتی؟ اگر پارٹی کا نام نیشنل پارٹی رکھیں تو سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ اس میں "بلوچ" یا " بلوچستان" کا لفظ کیوں نہیں ہے؟ نقاد کہتے ہوئے سنائی دیں گے کہ ’’آپ بھی بڑے سادہ ہیں۔ نیشنل پارٹی تو دراصل خود کو بلوچ کہلانے میں شرم محسوس کرتی ہے"۔ ہم نے لوگوں سے یہ بھی سنا ہے کہ’’ نیشنل پارٹی سیاسی جماعت کم اور این جی او زیادہ لگتی ہے‘‘۔ جن جن لوگوں کو اس پارٹی نے برسر اقتدار رھ کر بھی فائدہ نہیں پہنچایا تو وہ انھیں’’ منشیات فروشوں اور ٹھیکہ داروں کی پارٹی‘‘ کہتے ہیں۔
چلیں جی، تھوڑا اور آگے چلتے ہیں۔ اگرجماعت کا نام جمہوری وطن پارٹی رکھیں تو پوچھا جاتا ہےکہ پہلے "وطن" کی وضاحت تو کریں۔ وطن سے مراد کونسا وطن ہے؟ یعنی اگر مرحوم نواب اکبر بگٹی نے پاکستان کو اپنا "وطن" سمجھ کر اپنی جماعت بنائی تھی تو لوگ انھیں وفاق پرست ثابت کرنے کےحق میں دلائل دیں گے۔ جن لوگوں کا اصرار ہے کہ نواب صاحب کے لئے دراصل "وطن" سے مراد بلوچستان ہی تھا تو وہ بضد رہتے ہیں کہ نواب صاحب تو اصل میں قوم پرست تھے نا کہ وفاق پرست۔جب ڈاکٹر حکیم لہڑی نے ایک نئی جماعت بنائی اور اس کا نام بلوچستان نیشنل کانگریس رکھا تو لوگوں نے اسے انڈین نیشنل کانگریس سے جوڑنے کی کوشش کی۔ براہمداغ بگٹی نے جب اپنی جماعت کا نام بلوچ ری پبلکن پارٹی رکھا تو ہر کوئی یہ پوچھنے لگا کہ پہلے یہ تو بتاو کہ اس کا بلوچ ری پبلکن آرمی سے کیا تعلق ہے؟ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے نام میں کچھ لوگوں کو "پشتونخواہ" کے لفظ پر اعتراض ہے۔ انھیں کیا کیا القاب نہیں دئیے جاتے؟ مخالفین ان کے نام کا حوالہ دے کر انھیں نسل پرست کہتے ہیں جب کہ عوامی نیشنل پارٹی کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ یہ کونسی قوم پرست پارٹی ہے جس کےنام کے ساتھ پشتون کا لفظ تک نہیں لگا ہے؟ جمعیت علما اسلام محض بلوچستان کی جماعت نہیں ہے لیکن بلوچستان میں کسی بھی مخلوط حکومت میں اس کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ان کے نام پر بنیادی اعتراض یہ کیا جا تا ہے کہ وہ نام تو "اسلام" کا لیتے ہیں لیکن اس جماعت کی سیاست بھی حلوہ، ٹھیکے اور ٹرانسفر اور پوسٹنگ تک ہی محدود ہے۔
جب ایک جماعت کے لئے نام ڈھونڈا اتنا ہی مشکل کام ہے اور جو نام ملے وہ بھی گلے میں پھانسی کاپھندا بن جائے تو کون شریف آدمی نئی سیاسی جماعت بنانے کی جرت کرے گا؟ آخر کار لوگوں کو جواب بھی تو دینا پڑتا ہے۔ غلط نام منتخب کیا تو کہیں پوری سیاسی کیرئیر ہی داو پر نا لگ جائے۔
لیکن ان تمام مشکلات کو بالائے طاق رکھ کر جناب جام کمال اور کمپنی نے صوبہ میں ایک نئی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی یا "باپ‘‘ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ کئی سالوں کے بعد بلوچستان میں ایک نئی سیاسی جماعت بنائی گئی ہے جس میں بیشتر وہی لوگ شامل ہیں جو آج سے دس پندرہ سال قبل بلوچستان کے سیاسی افق پر وجود ہی نہیں رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ ان لوگوں کا طلبہ سیاست میں بھی دور دور تک وجود نہیں تھا۔
ہر سیاسی جماعت کی ایک فکری تاریخ ہوتی ہے۔ مثلاً قوم پرست جماعتیں غوث بخش بزنجو، نواب اکبر بگٹی ، سردارعطااللہ مینگل، نواب خیر بخش مری، عبدالصمد اچکزئی اور مفتی محمود وغیرہ کا حوالہ دے کر اپنا پس منظر بتاتی ہیں کہ وہ کہاں سے آئیں اور کن نظریات پر یقین رکھتی ہیں لیکن "باپ" کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ جماعت یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اس کا خالق کون ہے، یہ کس کی پارٹی ہے، کہاں سے آئی ہے اور اس کے نظریاتی آباواجداد کون ہیں،اس کے ووٹرز کون ہیں، ان کی سیاسی سوچ کیا ہے اور ان کے ساتھ اس جماعت کا رشتہ کب سے اور کہاں سےہے۔یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کا کسی بھی جمہوری معاشرے میں ہر شہری کوبلا چوں وچرا جواب ملنا چاہیے۔ تاہم ان سوالات کا جواب دئیے بغیر "باپ" اس بات پر بضد ہے کہ اگلے مہینے منعقد ہونے والےانتخابات میں کلین سوئپ کرکے حکومت بنائے گی۔انکے دعووں میں صداقت بھی ہے اور اب تک جوعندیے مل رہے ہیں ان کے مطابق یہی جماعت ہی بلوچستان میں سب سے زیادہ نشستیں جیتے گی۔
سابق وزیراعلیٰ قدوس بزنجو اور "باپ" کے دیگر رہنما بار بار ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ بلوچستان کو ملک کی دو بڑی جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بےجا استعمال، استحصال اور شر سے بچانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بلوچستان کے فیصلے بلوچستان ہی میں ہوں۔یہ خوش آئند بات ہے اور اس کی ضرورت تو بڑے عرصہ سے محسوس کی جاتی رہی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ "باپ" کو صرف سیاسی جماعتوں کی بلوچستان میں" مداخلت" پر کیوں اعتراض ہے؟
جام کمال، قدوس بزنجو، سرفراز بگٹی، انوار کاکڑ وغیرہ کا تعلق بلاشبہ بلوچستان کی نئی اور نسبتاً نوجوان قیادت سے ہے لیکن کیا وہ پورے بلوچستان کا مقدمہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں لڑسکیں گے؟ واقعی پچھلے ایک دہائی میں پاکستان مسلم لیگ ق، پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی حکومتیں بلوچستان میں جاری آگ اور خون کی جنگ کو روکنے اور سیاسی حل ڈھونڈنے میں ناکام رہی ہیں لیکن اس کے باوجود بلوچستان عوامی پارٹی صوبے کے لوگوں سے یہ وعدہ کرنے سے کترارہی ہے کہ وہ اقتدار میں آکر بلوچستان میں فوجی آپریشن، ماروائے عدالت قتل عام اور لاپتہ افراد جیسے سنگین مسائل کا حل ھونڈےگی۔ کیا یہ جماعت ان شہریوں کابھی "باپ‘‘ ہے جوکئی سالوں سے اپنے لاپتہ باپ، بھائی، شوہر، فرزند کی تلاش میں پریس کلبز کے سامنے مظاہرے کررہے ہیں؟
کیا بلوچستان کی نمائندگی کا دعویٰ دار جماعت پی پی پی اور مسلم لیگ کے ساتھ ساتھ فوج اور خفیہ اداروں کو بھی یہ بتائے گی کہ بلوچستان میں ان کی مداخلت ناقابل قبول ہے؟ کیا یہ جماعت صوبہ بھر میں پھیلے ہوئے چیک پوسٹس کا خاتمہ کرے گی؟ کیا "باپ" اہلیان بلوچستان کو یقین دلاسکتی ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہ داری (یا سی پیک) میں بلوچستان کے حقوق محفوظ ہوں گے ؟ اگر "باپ‘‘ لمبے عرصہ تک بلوچستان کے سیاسی منظر نامہ پر قائم اور دائم رہنا چاہتی ہے اور بلوچستان کے عوام کی ترجمان جماعت بن کر ابھرنا چاہتی ہے تو اس کے لئے یہی تو وہ سب سے بڑےمسائل ہیں جن کی بازگشت انتخابی ریلیوں میں سنائی دینی چائیے لیکن "باپ" سی پیک سے لے کر لاپتہ افراد کے معاملے تک ان تمام معاملات پر یکسر خاموش ہے جن کا بلوچستان سے بہت ہی گہرا تعلق ہے۔ ان کی یہ خاموشی دیکھ کر لگتا ہے کہ اس نئی جماعت کا بلوچستان سے کوئی تعلق لگتا ہے اور نا ہی اس کے عوام سے۔
جام صاحب اور کمپنی کو جماعت ایسی بنانی چائیے تھی جو عوام کے امنگوں کی ترجمان ہو اور اپنے نام کی صیح عکاسی کرے۔ ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ بلوچستان میں نئی سیاسی جماعت بناناقدرے آسان کام ہے لیکن اصل جھنجھٹ صیح نام ڈھونڈنے میں ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کو محض سب کا" باپ" ہونے کا دعوی دار ہونے کے بجائے اپنے اعمال سے یہ ظاہر کرنا چائیے کہ یہ جماعت پورے صوبے اور اس میں بسنے والے تمام شہریوں کی پارٹی ہے جن کے حقوق پچھلے کئی سالوں سے سلب کئے گئے ہیں اور اس کی ذمہ داری محض ملک کی دو بڑی جماعتوں پر عائد نہیں ہوتی۔
اہلیان بلوچستان کوصرف پی پی پی اور مسلم لیگ یا اسلام آباد سے گلے شکوے نہیں ہیں بلکہ ان کی شکایت کا سلسلہ پنڈی اور بیجنگ سے بھی ملتا ہے۔ انقلابی اور انتخابی پارٹیوں میں یہی بنیادی فرق ہوتاہے کہ انقلابی پارٹیاں عوام کی ترجمانی کرتی ہیں جب کہ انتخابی پارٹیاں (مثلاً ماضی میں ق لیگ) صرف مقتدر طبقے کی نمائندگی کرتی ہیں۔ جام صاحب نےبلوچستان کے لئے ایک نئی پارٹی تو تشکیل دی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ بلوچستان عوامی پارٹی انقلابی اور انتخابی میں سے کس زمرے میں آتی ہے؟